بے نام سے رشتہ پہ الزام تو آنا تھا
خواہش کو میرے دل کی چپ چاپ دبانا تھا
رکھے ہوتے لفافے میں بند پیار کے افسانے
کیوں دل کے محرم کو میرا حال سنانا تھا
ان پیار کے جذبوں کو سمجھے گا کوئی کیسے
اس آگ کے دریا میں بس ڈوب ہی جانا تھا
بدنام تو ہونا تھا محفل کا تقاضہ تھا
گستاخ نگاہوں کو ایک بار بتانا تھا
نکل آئے نہ پھر تاریک اندھیروں سے
محبت کے جذبے کو اس طرح دبانا تھا
پھر شوق سے کر جاتے سمندر کے حوالے
ریت پہ ساحل کی تمھیں گھر ایک بنانا تھا
اسے چھوڑ کے جانے کا غم مجھ کو بھی تھا ساجد
پاس میرے مگر کوئی بھی خاص بہانہ تھا