بے نام مہرباں
میرے بے نام مہرباں سن لو
تم سے مل کر سکون ملتا ہے
پر کبھی کھل کے بات ہونہ سکی
نہ کبھی کھل کے مل سکتے ہم تم
دلنشیں واردات ہو نہ سکی
یوں سر راہ ایک پل کے لئے
ایسے ملنے سے جی نہیں بھرتا
مل جو پائیں ذرا سی دیر کو ہم
گھر پلٹنے کو دل نہیں کرتا
کبھی ایسا ہو تیری قربت میں
زیست کا ایک دن گزر جائے
شام جب گھر کو لوٹ جاؤں میں
صحبت یار مہرباں کے طفیل
نا امیدی نظر کی مر جائے
یہ تمنا ہے ایک شاعر کی
تم سے تیری ہی کوئی بات کروں
تم سے تیرا ہی کوئی شعر سنوں
کوئی لمحہ تو میرے نام کرو
چند گھڑیاں تو میرے ساتھ رہو
میرے بے نام مہرباں سن لو
تم سے مل کر سکون ملتا ہے