بس ایک بار ِالم ہے کہ ڈھو رہے ہیں ہم
تمہاری سال گرہ پر بھی رو رہے ہیں ہم
تمہارے بعد کٹھن ہیں مسافتیں اتنی
چلے نہیں ہیں کہ ہلکان ہو رہے ہیں ہم
نہ جانے کون سی تعبیر چاہیے ہم کو
کہ اپنے خواب لہو میں ڈبو رہے ہیں ہم
یہ صرف اپنا جگر ہے کہ اپنے نور ِنظر
شہادتوں کی لڑی میں پرو رہے ہیں ہم
جو رہبری کی علامت تھی چھن گئی ہم سے
اب اور کون سی منزل کو کھو رہے ہیں ہم
کوئی نہیں ہے اب ایسا کہ سر اُٹھا کے چلے
وگرنہ شہر میں دو چار تو رہے ہیں ہم