بے یاروں سے جب سے یاری ہو گئی
زنجیرِ زندگی تب سے بھاری ہو گئی
رگِ جاں پہ جو ڈالا ہاتھ اُس نے
اِک اِک سانس پہ دُشواری ہو گئی
لُٹتے چلے آئے ہم راہوں میں
جیتی تھی جو بازی‘ ہاری ہو گئی
نہ دیا تُو نے اِک لمحہ بھی ہم کو
ہماری تمام زندگی مگر تمہاری ہو گئی
خوف آیا جب بھی تیرے ظلموں کا
لرزش سی ہم پہ طاری ہو گئی
آنسوؤں نے لکھ دئیے نصیب اپنے
زندگی سنگین ساری کی ساری ہو گئی
یہ لا کے کس موڑ پہ‘ گیا تُو چھوڑ کے
بے وجہ سی راہِ منزل ہماری ہو گئی