وہ پھر مجھ سے رُوٹھا ہے ، جسے اپنا میں نے بنایا ہے
وہ جب بھی مجھ سے رُوٹھا ہے ، اُسے میں نے منایا ہے
اُس کی خوشی کا رکھا ہے ہر پل خیال میں نے
اور دل مرا اُسی نے ہی ہر بار جلا یا ہے
اُس کی زندگی کی راہوں سے کانٹے ہٹائے میں نے
اور اُسی نے ہی زندگی بھر مجھے ستایا ہے
چاہا تھا میں نے دل و جاں سے جسے
مرے سینےمیں زخم اُسی نے لگایا ہے
جب سے دیکھا ہے اُسے غیر کے ساتھ کاشف
تب میں سمجھا کہ اپنا نہیں پرایا ہے