کتنی اداس کتنی خاوش کتنی بریشان ہوتی ہے
ابنی آغوش میں کتنے ہی غمزدوں کو لوریاں دے کر سلاتی ہے
تجھے کہاں معلوم رات کا دکھ
صبر اتنا کہ اف تک نہ کرتی ہے
ہر ایک چیز کی سیاہی خود پر مل لیتی ہے
اس قدر سیاہ و جاتی ہے کہ
صبح روشن میں خود بخود ہی بدل جاتی ہے
تجھے کہاں معلوم رات کا دکھ
ہر کام میں تیزی دکھاتے ہیں کچھ لوگ
ہر لمحہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں کجھ لوگ
اس حرص و ہوس کی دوڑ میں اکثر
ابنے آب کو بھی بھول جاتے ہیں کچھ لوگ
روشن تھا اپنے بھی وصل کا تارہ
آتی نہ اگر یہ رات کی سیاہی
خوشیاں تو کیا غم بھی نہیں پاس
کجھ ایسے ہو گیا ہے دامن خالی