تجھ سے بچھڑ کے سمت سفر بھولنے لگے
پھر یوں ہوا ہم اپنا ہی گھر بھولنے لگے
قربت کے موسموں کی ادا یاد رہ گئی
گزری رفاقتوں کا اثر بھولنے لگے
ازبر ہیں یوں تو کوچۂ جاناں کے سب نشاں
لیکن ہم اس کی راہ گزر بھولنے لگے
پہنچے تھے ہم بھی شہر طلسمات میں مگر
وہ اسم جس سے کھلنا تھا در بھولنے لگے
ہم گوشہ گیر بھی تھے کسی مہر کی مثال
اوجھل ہوئے ادھر تو ادھر بھولنے لگے
جان حسنؔ اب اس سے زیادہ میں کیا کہوں
مر جاؤں تیری یاد اگر بھولنے لگے