عجیب موسم ھے کہ تجھ سے وہ قربت نہ رہی
میرے نصیب میں جو برسی تھی وہ بارش نہ رہی
بھٹک سے جاتے تھے منزل پر پہنچ کر اکثر
میں اس کو کیسے ملوں اب وہ مسافت نہ رہی
بے وفائی وہ سمجھا تھا میری وفاء کے جذبوں کو
تیری وصل کی شب میں اب وہ محبت نہ رہی
میں ڈھونڈ لاتا محبت کی کھوئی ھوئی سچائیاں
پر تیری فطرت میں وہ سہنے کی عادت نہ رہی