سنا ہے سامنے سب کے وہ اکثر مسکراتی ہے
مگر تنہائیوں میں ٹوٹ کر آنسو بہاتی ہے
میں الفت کو جہا ں کی گردشوں سے ماورا سمجھا
وہ اس کو وقت کے خانوں تلک محدود کہتی ہے
مجھے بھی چاند راتوں میں اکیلے پن سے وحشت ہے
سنا ہے بے کلی میں اس کی عادت خود کلامی ہے
کبھی باتوں ہی باتوں میں جو میرا نام آ جائے
وہ مر جھائے گلابوں کو سنا ہے چوم لیتی ہے
وہ ساون کی رتوں میں جب ملن کے گیت گاتی ہے
مجھے کچے گھڑ ے والی وہ سوہنی یاد آتی ہے
اسے تو چاند کی کرنوں سے اندھا پیار تھا انجم
سنا ہے اب اماوس کی راتوں کی بات کرتی ہے
انا کا مسئلہ درپیش ہے ورنہ حقیقت میں
اسے میری مجھے اس کی کمی محسوس ہوتی ہے