دھرتی پیاسی ہے
کتنی صدیوں سے دھرتی پیاسی ہے
اور دھرتی کی یہ پیاس
ساون کی رُت نہ مٹائے
بھادوں کی بوچھاڑ نہ بجھائے
یہ ہنگام ِ ابر ِ باراں
یہ تو پیاس اور بڑھائے
دھرتی کے سینے میں آگ لگائے
جنم جنم کی یہ پیاس
لمحہ لمحہ کی یہ آگ
یہ تو اپنا خراج ہے مانگے
انسان کا لہو بہتا جائے
پیاس یہ پھر بھی بڑھتی جائے
آگ یہ پھر بھی بُجھ نہ پائے