تعلقات مسلسل بھی تازیانے تھے
Poet: آہ سنبھلی By: مصدق رفیق, Karachiتعلقات مسلسل بھی تازیانے تھے
وہ دھاگے ٹوٹ گئے جو بہت پرانے تھے
ترے ملن سے ترا انتظار بہتر تھا
بنے نہ جسم جو سائے وہی سہانے تھے
سنائیں لفظوں کی سب سطح سنگ پر ٹوٹیں
تمہیں یہ وار تو پھولوں پہ آزمانے تھے
ہمارے بعد بھی رونق نہ آئی اس گھر پر
چراغ ایک ہوا کو کئی بجھانے تھے
بچا نہ کوئی مسافر بھی درمیان سفر
نہ جانے کون سے تیروں کے سب نشانے تھے
یہ بام و در پہ جو چمکی تھی دھوپ سی اے آہؔ
مری تلاش میں گزرے ہوئے زمانے تھے
More Sad Poetry






