تعلق اتنا گہرا تھا مرا بحرِ حوادث سے
رکا جس دم تھا دم پایا تھا ڈھانچہ اپنا ساحل پے
اٹھا کے سنگ دے ماروں سروں پر ایسی لہروں کے
گرا دیتی ہیں گھر میرا بناؤں روز ساحل پے
مکانی بحر تو خود ہی مقید پا بہ جولاں ہے
زمانی بحر سے جا کر ہے آیا کون ساحل پے
ہوا دھوکہ نظر میری کو واپس تیرے آنے کا
صبا کے تھے جو دیکھے تھے قدم الٹے سے ساحل پے
ہے پل دو پل کا میلہ سب یہ رنگ و نور کی محفل
کوئی آئے کوئی جائے ، رکا ہے کون ساحل پے
سفر میرا ، حضر تیرا، حضر میرا ، سفر تیرا
سرِ ساحل بحر میں ہوں، بحر میں ہوں تو ساحل پے
وہی ابھریں تصور میں، بحر کے آیئنے میں سب
نظر کے راستے اتریں، شبیہیں دل میں ساحل پے
چلو ہم مرتضائیؔ کو سنائیں اپنا افسانہ
کہ جگ بیتی تھی خود بیتی روایت وقت کے ساحل پے