کبھی زمین نہیں ملتی تو کبھی آسمان نہیں ملتا
گھر تو مل جاتے ہیں اکثر پیار کا آشیاں نہیں ملتا
تنہائی کی وادی میں سرگرداں ہوں میں بچپن سے
کبھی منزل روٹھتی ہے تو کبھی کارواں نہیں ملتا
قابل بھروسہ قیامت کسی مومن نے نہیں دیکھی
وہ کافر کیا کرے جسے کوئی بھی جہاں نہیں ملتا
ہم جس پر مرتے ہوں وہ بھی تو جان لُٹاتا ہو
خواہش ایسی ہے یہ جس میں کوئی کامران نہیں ملتا
سب کچھ ملتا ہے یہاں بصارت ہو یا گردے ہوں
فقط یہاں جو مر جائے وہ زندہ انسان نہیں ملتا
ہر کوئی دکھی دیکھائی دے مسائل زندگانی سے
جینے کے لیے کیونکر کوئی راستہ آسان نہیں ملتا
کنول یہ تو ممکن ہے کہ انسان بھاگ جائے پوری دنیا سے
خود کو مگر نہ پائے جہاں ،جہاں میں قبرستان نہیں ملتا