تمنا اب بے حال ہو چکی ہے
گزرا ہوا خیال ہو چکی ہے
تیری یاد کا بوجھ میرے دل پہ
محبت بے مثال ہو چکی ہے
اُس کے کھو جانے سے میری
اُمید و آشا کنگال ہو چکی ہے
حریف بنا ہے جب سے میرا
زندگی اِک سوال ہو چکی ہے
اندوہ و تردد میرے سر پہ سوار
خوشیوں کی مالا زوال ہو چکی ہے
اُس کی یاد کے پردے میں
اِک اِک سانس محال ہو چکی ہے