تُمھارے بِن مَیں جِیا نہیں تھا، مَرا نہیں تھا
کہ ہجر کا دُکھ کہا نہیں تھا، سُنا نہیں تھا
حسین لاکھوں جہاں میں دیکھے تھے مَیں نے، لیکن
کہیں بھی تُم سا دِکھا نہیں تھا، مِلا نہیں تھا
نہ ڈھونڈ پایا مَیں نقش تیرے کہیں بھی رہبر
کہ چلتے چلتے تھکا نہیں تھا، رُکا نہیں تھا
نصیب میں میرے سب لِکھا تُو نے اے خُدایا
وہ شخص ہی بس مِرا نہیں تھا، “لِکھا نہیں تھا”
غموں نے دل کو جلا کے پھر رات بھر جلایا
کہ دیپ بھی یوں جلا نہیں تھا ! بُجھا نہیں تھا
سُکون بھی تھا، قرار بھی تھا اُنھی دِنوں میں
یہ پیار جس دم کِیا نہیں تھا، ہُوا نہیں تھا
زمانے کے ساتھ جو چلے پائے درد، کاشف
جہان سارا مِرا نہیں تھا، تِرا نہیں تھا