تمہارے قافلے کا ہر گھڑی منظر بدلتا ہے
کبھی رہزن بدلتا ہے، کبھی رہبر بدلتا ہے
لباسِ فاخرہ کی آرزو تو سب کو ہے لیکن
کہاں ملبوس کے اندر کوئی پیکر بدلتا ہے
تم اِک انسان کے بدلے ہوئے تیور پہ حیراں ہو
یہ وہ موسم ہے کہ پنچھی بھی اپنے پر بدلتا ہے
چاہتوں سے اُسے میں نے محبت سے تراشا ہے
بس اب یہ دیکھنا ہے رنگ کب پتھر بدلتا ہے
اُسے تو شوق ہے ہر دل میں یوں جا کر ٹھہرنے کا
وہ کچھ ہی روز میں اُکتا کر اپنا گھر بدلتا ہے