تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ، مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خدوخال
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو ، مرے سارے رنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذا ب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا ، مری دھڑکنوں کو قرار دو
تمہیں صبح کیسی لگی کہو ، مری خواہشوں کے دیار کی
جو بھلی لگی تو یہیں رہو، اسے چاہتوں سے نکھار دو
وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ وہ فکر دیر سویر کی
بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گذار دو
کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اونٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو