کبھی تم نے یہ سوچا ہے
کسی کی سوچتی، سادہ سی آنکھوں میں
اداسی کی خفی تحریر تم نے سب مٹا ڈالی
دھنک سپنوں کا پھر سے جال سا اک بن دیا ان میں
مگر جاناں
ذرا سوچو
اگر اس بار بھی سپنے کسی نے توڑ ڈالے تو
وہ ان کی کرچیاں ساری کی ساری
اپنی پلکوں میں چھپالے گی
اگر اس زندگی کے بھیس میں پھر مرگ نکلی تو
گلے اس کو لگالے گی
تم ایسا کیوں نہیں کرتے
ابھی سے اس کو بتلا دو
تمہیں واپس بھی جانا ہے