تم اجنبی ٹھہرے بہت نزدیک آ کے بھی
بیگانے ہی رہے مجھے اپنا بنا کے بھی
کیسے مان لوں تم میرے نہیں پرائے ہو
یہیں لوٹ کے آتے ہو تم دور جا کے بھی
چشم نم کی سسکیوں کا برملا اظہار
نہیں دل سے بھلا پائے بظاہر بھلا کے بھی
تبرک جان کے محبوب کا ہر جبر سہتے ہیں
عاشق مر نہیں جاتے مصائب اٹھا کے بھی
کیسی تشنگی ہے جو مٹائے سے نہیں مٹتی
بہت کچھ کہنا باقی ہے بہت کچھ بتا کے بھی
بہت چاہتے ہیں دامن گیر نہ ہوں خواہشیں لیکن
الجھتے ہی چلے جاتے ہیں دامن کو بچا کے بھی
ہمیں معلوم تھا عظمٰی یہ ہونا ہے، ہوا آخر
اثاثہ اپنی چاہت کا رہے تنہا لٹا کے بھی