تم اس کو شعور وفا کہو ہم اسی کو کہتے رہیں بھرم
تم انہیں بتوں کو خدا کہو ہم انہیں بتوں کو کہیں صنم
میرے دل کا ہے اضطراب یا تیرے غم کا یہ التہاب ہے
کبھی کیفِ غم میں ہیں لذتیں کبھی شکوہ سنج غم و الم
یہ جنونِ عشق کی شورشیں یہ جمال دوست کی رونقیں
کروں سجدے تو کن جہات میں یہاں کوئی کیف نہ کوئی کم
یہ تو موسموں کا کمال ہے پھر الگ ہر ایک کا خیال ہے
کبھی لطف میں سینکڑوں ستم کبھی تیری ہر ایک جفا کرم
انہیں میرے دکھ کا خیال ہے انہیں آج تک یہ ملال ہے
وہ جو بے رخی سے گذر گئے تبھی میری آنکھیں ہوئی تھیں نم
یہ حیات و موت کا سلسلہ نہیں ان میں کوئی بھی فاصلہ
وہ جو کے ساتھ تھا صبح دم، گیا ایک پل میں سوئے عدم
میں شہیدؔ مست ازل فقیر، تو ہے فضل رب میرا دستگیر
نہ کسی بھی دور میں بک سکا نہ بکے گا اب بھی مرا قلم
میں فرازِ دار پہ چڑھ گیا تو میرا قد اور بھی بڑھ گیا
تھی مجھے خود اپنی ہی جستجو ،تو انا کا نغمہ تھا ہم قدم