سات سمندر پار کے باسی
نہ کر بلا وجہ خود پہ طاری
اداسی
سن ! زرا غور سے سن
میں تو اپنے ہی درد کے
حصار میں گم ھوں
حالات کے تھپیڑوں پہ میرے
صبر کی کشتی ہچکولے سے
کھا رہی ھے
نہیں ھے اپنی ہی کچھ ہوش
نا کردہ گناہ کا نہ دو تم بھی
مجھے دوش
نہ باغ کا ھے پتہ
نہ بہار کی ھے خبر
نجانے کب ہو گی ؟
جان لیوا اندھیروں کی سحر
ابھی تو بس عذاب اٹھا نے
آتے ہیں
ابھی چہروں سے مجھے کب
نقاب اٹھانے آتے ہیں
خدارا!
اک التجا بھرپور ھے تم سے
کہ
یقین کی بارش میں بھیگو
تم انسان شناسی سیکھو