دعوٰی کرے نہ عشق کو بیدار کر دیا
اک برگِ گل جو لائے ہے دیدار کر دیا
یہ زندگی اٹھا کے اڑوں آسمان تک
ہمت کی داستان کو شہوار کر دیا
دیکھے ہیں کتنے آدمی راہِ حیات میں
اب زندگی کے ساتھ کو گفتار کر دیا
بے چہرہ زندگی ترے خوابوں کے درمیاں
مشہور ہو گئی ہے طلبگار کر دیا
رکھیے تو دوستانہ مراسم بھی کس طرح
جب بھی ملے ہیں دونوں کو لاچار کر دیا --
تنہائیاں رفیق رہی ہیں تمام عمر
تم ہی کہو کہ زیست کو زر دار کر دیا
جب اُس نے میرے درد کو سمجھا نہیں کبھی
پھر پیار کی بھی مانگ سے انکار کر دیا
مرتے تھے جب فراق میں وہ دن نہیں رہے
یادوں کا اک ہجوم کو دشوار کر دیا
اس کو ہے کیا پتا کہ خزائیں بھی ہیں امر
آیا ہے ملنے آج جو بیمار کر دیا
ٹوٹے تو ٹوٹ جائے یہ بھی پیار کا محل
شیشے کے جیسا مجھ کو تو ہموار کر دیا
سہما ہوا ہے دشمنِ جاں وشمہ دیکھئے
ناکام ہو گیا ہے وہ پر خوار کر دیا