تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا
آنکھوں میں سو رہا تھا اندھیرا تھکا ہوا
سینے میں جیسے تیر سا پیوست ہو گیا
تھا کتنا دل خراش اداسی کا قہقہہ
یوں بھی ہوا کہ شہر کی سڑکوں پہ بارہا
ہر شخص سے میں اپنا پتہ پوچھتا پھرا
برسوں سے چل رہا ہے کوئی میرے ساتھ ساتھ
ہے کون شخص اس سے میں اک بار پوچھتا
دل میں اتر کے بجھ گئی یادوں کی چاندنی
آنکھوں میں انتظار کا سورج پگھل گیا
چھوڑی ہے ان کی چاہ تو اب لگ رہا ہے یوں
جیسے میں اتنے روز اندھیروں میں قید تھا
میں نے ذرا سی بات کہی تھی مذاق میں
تم نے ذرا سی بات کو اتنا بڑھا لیا
کمرے میں پھیلتا رہا سگریٹ کا دھواں
میں بند کھڑکیوں کی طرف دیکھتا رہا
آزرؔ یہ کس کی سمت بڑھے جا رہے ہیں لوگ
اس شہر میں تو میرے سوا کوئی بھی نہ تھا