بوئے تھے پھول جاناں دیکھو اگے ہیں کانٹے
کوئی تو ہو جو آ کے دکھ آج میرے بانٹے
صلہ میری چاہتوں کا تنہائی کے دریچے
پنہاں تھی خیر خواہی میری نفرتوں کے پیچھے
انکی خوشی کی خاطر حسرت زدہ رہا میں
انجان مصلحتوں میں کیونکر دبا رہا میں
مہر و وفا کی چادر نہ مجھ کو راس آئی
جاں تک لٹا دی جن پہ انکو سمجھ نہ آئی