توبتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaتو بتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
تمہارے نا بلانے پر
میرے یوں ہی چلے جانے پر
مجھے دیکھ کر تمہارا
چہرہ بدل جانے پر
تو بتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
میں ساری رات روتی رہوں
میں ساری رات سوتی رہوں
یا اک آس کے دیے کو جلاتی رہوں
جب تم نے ہی نہیں آنا
تو بتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
میرے ہسنے سے ، میرے گانے سے
میرے یوں چپ چاپ
آنسو بہانے سے
جو ساتھ دیکھے تھے
وہ سپنے جلانے سے
تو بتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
میں روٹھ جاؤں تم سے
میں ٹوٹ جاؤ خود میں
میں ُبری تھی میں ُبری ہوں
کوئی جو مجھے ُبرا کہہ جائے
تو بتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
میں لکی تھی کبھی تمہارے لیے
میں کھلونا ہوں اب تمہارے لیے
جبکہ مٹی ہے وجود میرا خود کے لیے
اگر تھک ہار کر مٹی ، مٹی میں مل جائے
تو بتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
میرے سوالوں پر
تمہارا کچھ جواب نا دینا
میرا خاموش رہنا
لیکن تمہیں کبھی الزام نا دینا
لیکن اک پل کے لیے سوچوں اگر
اندر ہی اندر میرا جو دل مر جائے
تو بتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
میرے بغیر بھی تم خوش رہتے ہو
بہت سے چاہنے والے ہیں تمہارے
اگر ان میں کہیں میں شامل نا ہوں
میں چپ چاپ کہیں چلی جاؤ
پھر کبھی نا لوٹ کر آؤ
توبتاؤ تمہیں کیا فرق پڑتا ہے
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






