توقیرِ زات کی ، نیلامی نہیں ہوگی
اب ہم سے اور ، غلامی نہیں ہوگی
گردن میں خم ، لہجے میں عاجزی
جھک کر اس طرح ، سَلامی نہیں ہوگی
یہ جو کرتی پھرتی ہے اوروں کی عیب جوٸی
کیا اس زباں میں کوٸی ، خامی نہیں ہوگی
جس کے لۓ تو نے نظام کو چھیڑا
دیکھ وہی خلقت تیری ، حامی نہیں ہوگی
انحراف کر کے شاہ کے حکم سے
تو سمجھا کارواٸی ، انتقامی نہیں ہوگی
دھتکار کر مجھے تمہیں کیا لگا تھا
میسر اب مجھے کوٸی ، أسامی نہیں ہوگی
اخلاق زندگی میں اتنے ہنگامے سہے کہ اب
کوٸی بھی بات مجھ میں ، ہنگامی نہیں ہوگی