تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز میں چپ
دونوں بیچ کھڑی ہے دنیا آئینۂ الفاظ میں چپ
اول اول بول رہے تھے خواب بھری حیرانی میں
پھر ہم دونوں چلے گئے پاتال سے گہرے راز میں چپ
خواب سرائے ذات میں زندہ ایک تو صورت ایسی ہے
جیسے کوئی دیوی بیٹھی ہو حجرۂ راز و نیاز میں چپ
اب کوئی چھو کے کیوں نہیں آتا ادھر سرے کا جیون انگ
جانتے ہیں پر کیا بتلائیں لگ گئی کیوں پرواز میں چپ
پھر یہ کھیل تماشا سارا کس کے لیے اور کیوں صاحب
جب اس کے انجام میں چپ ہے جب اس کے آغاز میں چپ
نیند بھری آنکھوں سے چوما دیئے نے سورج کو اور پھر
جیسے شام کو اب نہیں جلنا کھینچ لی اس انداز میں چپ
غیب سمے کے گیان میں پاگل کتنی تان لگائے گا
جتنے سر ہیں ساز سے باہر اس سے زیادہ ساز میں چپ