تو حاکمِ وقت ہے جو چاہے حکم دے
تیرا لڑکھڑا کر چلنا بھی رسم دنیا کہلائے گا
اشارہ تیرا بنا دے صف،روک دے کارواں
کب تک دنیا کو اپنے اشاروں پہ نچائے گا
سب نادان حقیر و ناتواں ہیں تیرے سامنے
حقارت کی وجہ تو خود اک دن بتائے گا
ہر عروج کے بعد زوال لکھ دیاہے میرے رب نے
کیا ہوگا تیرے زوال کا تو اپنی زبانی بتائے گا
پکڑلینا تومجھے گر پکڑ نہ ہوئی تیری
مجھے چھوڑ تجھ سے تو حیوانوں کا حساب بھی لیاجائے گا
تب معاف کرے گا تجھے یہ حقیر انسان
تیرے اپنوں کو تجھے سخت حساب دینا پڑے گا
سنبھل جا آج بھی تو سن لے کاتب کی صدا
جلد لوٹ آ ظالم ورنہ بہت پچھتائے گا