تو ختم جو کر چلا وہ رشتہ نبایا بھی جا سکتا تھا
بات صرف فهم کی تھی بات کو نبٹایا بھی جا سکتا تھا
شاہد کہ میں عشق میں انتہا کر گیا میرے ہم دم
اتنی خیلی عصبانی کیوں مجھے سُلجھایا بھی جا سکتا تھا
ختم میرا نہیں ہوگا کبھی افسانہ صاحب
اگر ہوئے بے زار لفظوں کو ًمِٹایا بھی جا سکتا تھا
اب جو زندگی ارزش نہ رہے اس کی وجہ ہو شما
نہیں تھی زندگی عزیز مجھے دفنایا بھی جا سکتا تھا
لفظ لفظ تیری بے وفائی کا تانا دیتا ہے مجھے
نہیں تھا چاہت کے قابل مجھے بتایا بھی جا سکتا تھا
لب سی لیئے ہم نے الگ ہی اب بَسے گی دُنیا اپنی
رہے گاگِلہ دے کہ چاہت مریضِ عشق بچایا بھی جا سکتا تھا
ہو گا تماشا کَفن میں نے جب ہو گا کیا زیب تن نفیس
روتے روتے پھر تم کہو گی جاتے جاتے اک بار مُسکرایا بھی جا سکتا تھا