(غربت کے ہاتھوں مجبور ماں سے یونیفارم کی فرمائش پوری نہ ہونے پر بچہ کی خودسوزی کے واقعہ پر)
میرے بچے تیرا اصرار میری آنکھوں پر
پر تجھے کیسے بتاتی کہ نئے کپڑوں سے
سلوٹیں حال ِ غریبی کی نہیں جا سکتی
تجھ کو یہ شوق کے اجلے سے نئے کپڑوں میں
روز ملبوس سویرے تو مدرسے جائے
تیری خواہش تھی کہ رنگوں سے مزین ہو لباس
تیری خواہش تو میرے چاند بجا تھی لیکن!
میں تجھے کیسے بتاتی کہ نئے کپڑوں کے
شوخ رنگوں میں تیری زرد سی رنگت بیٹا!
تیری حالت کا، غریبی کا پتہ دے دیگی
میں تھی مجبور، ڈر تھا کہ بتانے پہ تجھے
تیرے احساس جو کومل ہیں گلابوں کی طرح
ان حالات کی سختی سے کچل نہ جائیں!
تیری معصوم نگاہوں میں سجے سپنے سب
باعثِ حالِ غریبی مچل نہ جائیں!
دیکھو بچے میرے، اٹھ جائو، سنو بات میری!
میں نے سب بیچ کے رنگوں سے مزین کپڑے
تیری خواہش پہ خریدے ہیں بڑی چاہ کے ساتھ
مجھ سے کچھ بات کرو، دیکھ تو لو چاند میرے!
کیسے لگتے ہیں؟
بھلے ہیں یا برے لگتے ہیں؟
یہ جو کپڑے تیرے نازک سے بدن پر ہیں اب
تیرے خواہش کے مخالف ہیں، بہت سادہ ہیں
اٹھ بھی جائو نہ میری جان، بتائو مجھ کو،
تو نے کیوں اپنی تمنا کا گلہ گھوٹ لیا؟