تِرے جذبوں کی شِدت میں کمی محسوُس ہوتی ہے
ہو تبدیلی کویٔ بھی لازمی محسوُس ہوتی ہے
مِری دھڑکن کے روزن سے صدا آتی ہے نوحوں کی
مجھے دُنیا ہی ساری ماتمی محسوُس ہوتی ہے
یہ دو آ نسوُ پھسل آۓ کہاں سے میرے گالوں پر
کہ اب ساری فضا ہی شبنمی محسوُس ہوتی ہے
بِچھی ہے ہر طرف سبزے کی جیسے مخملیں چادر
نگاہوں کو ہر اِک شے ریشمی محسوُس ہوتی ہے
کِسی محفل میں کویٔ جب تمہارا نام لیتا ہے
نجانے کیوں مجھے دھڑکن تھمی محسوُس ہوتی ہے
تِری بے اعتنایٔ نے مجھے یہ کیا بنا ڈالا
بدن میں برف سی اب تو جمی محسوس ہوتی ہے