تڑپ تڑپ کے زندگی سِمٹ گئی ساری
نہ ہی ھم رہے، نہ رہی داستاں ھماری
نہ جلا دیپ کبھی آشیاں میں میرے
نہ رُکی آ کر کبھی خوشیوں کی سواری
سہتا رہا میں چُپ چاپ ذمانے کے ستم
خُدا جانے کہاں گئی میری تیزی طراری
میں یوں ہار گیا زندگی کی بازی
مات کھایا ہو جیسے انجان جواری
سکھا دی اشکوں سے دوستی مجھ کو
اے میرے ستم گر بہت مہربانی تمھاری
گُلشنِ دل کو واسطہ رہا غم کے کانٹوں سے
آئی نہ کبھی بھی گُلِ راحت کی باری