آج رموز جگر کو زیر و زبر کرنے بیٹھے
سر زمین عشق کو سر کرنے بیٹھے
احاطہ تھا خالی یہ سرنگوں کا
خیالوں کو لے گھر کرنے بیٹھے
فقط دو قلم کا حیات سفر تھا
سیاہی کے ایوز بسر کرنے بیٹھے
زمین جگر مے اگا تھا جو دانہ
نظر وہ نہ آیا نظر کرنے بیٹھے
ہمیں یہ یقیں تھا وہ اعلی نسب ہے
تکرار ان سے مگر کرنے بیٹھے