چھوٹی سی گڑیا ننھی سی پری
کتنی معصوم تھی کتنی حسین
زمانے کی گرد چھو نہ پائی جس کو
بند کلی پھر کیوں ایسے مرجھائی
ہونٹوں پر فریاد آنکھوں میں نمی
فریاد کس سے کریں کس کو دیں دہائی
کچے خواب یوں کیوں یہاں بکھرے پڑے
موت کے ننگے ناچ پر ہم سب تماشائی
بوند بوند پانی کو ترستے پیاسے ہونٹ
تھر کے صحرا میں یہ آفت کیسی آئی
دیکھو تڑپنا ان بےکس لاچاروں کا
امداد کو بس لفاظی تک ہے رسائی
دیکھو وہ ننھی پری بھی سو چکی اب
سنگ دل زمانے سے مل گئی اس کو رہائی
قہر ٹوٹے یا مٹا دے الله ہم سب کو ابھی
اے وقت کے حاکم پھر تجھے نیند کیسے آئی