تھم سی گئی ہے زندگی ایسے جسم میں باقی نا ہو جان جیسے اکھڑا اکھڑا سا رہتا ہوں میں خود سے دِل میں باقی نا ہو کوئی اَرْمان جیسے شاید کے اب مر جاؤنگا میں شمع کے لیے جل جاتا ہے پروانہ جیسے