ہنر کے دم سے پتھر بولتا ہے
مے میں جاں ہو تو ساغر بولتا ہے
کہیں پرواز رکی ہے فضا میں
پرندے کا گرا پر بولتا ہے
مجھے گرداب یہ کل کہہ رہا تھا
تیرے اندر سمندر بولتا ہے
بے زبانی ہے تیرے محلوں میں
میرا ٹوٹا ہوا گھر بولتا ہے
چھپا مت مجھ سے داستان ہجر
تیری آنکھوں میں منظر بولتا ہے
ایسے آئی تیرے قدموں کی آہٹ
جیسے روٹھا مقدر بولتا ہے
دل تو کب کا چرا لیا تم نے
یہ کیا سینے کے اندر بولتا ہے