تیری آنکھوں کے چراغ ہر راز بتا دیتے ہیں
خاموش ہونٹوں کے سبھی احوال سنا دیتے ہیں
ہم جب بھی چلتے ہیں کوئی چال نئ
ستوں اہل ء رقابت کے ہلا دیتے ہیں
جرت رکھتے ہیں ہم نبھا کی بھی
اور نبھا میں معیار اپنے بھلا دیتے ہیں
ہم کہ عیاں ہیں کھلی کی کتاب کی مانند
پڑھنا چاہے جو ہر لفظ پڑھا دیتے ہیں
حوصلے ان کے ظرف کے تو ذرا دیکھو تم
شجر اجاڑ کر پھول قدموں میں سجا دیتے ہیں
وہ راستے جن پہ چلے تھے کبھی ہم
اسے کہنا وہ اب بھی صدا دیتے ہیں
لوگ تو لمحوں میں بدل جاتے ہیں عنبر
لو پا کر وہی چراغ بجھا دیتے ہیں