انداز خموشی میں ہے گفتار کا پہلو گویا نہ سہی چپ بھی کہاں ہیں تیری آنکھیں جاؤں کہاں میں توڑ کے زنجیر وفا کو ہر سو میری جانب نگراں ہین تیری آنکھیں