تیرے ہونٹوں کے تبسم کی دعا چاہتا ہے
اور پھر آنکھ جھپکتے ہی فنا چاہتا ہے
وہ چلے آج کی خواہش پہ تو ملنے آئے
اور پھر چاہو تو تم پھر سے جدا چاہتا ہے
تیری آنکھوں میں کسی یا س کا پانی بن کر
تیری ہستی پہ مجھے آج فنا چاہتا ہے
حوصلہ دل میں رہے پیار نبھانا ہے کٹھن
پیار ہوجائے تو دشمن پہ فدا چاہتا ہے
چوم لو آج محبت سے مرے گالوں کو
وقت آخر ہے مجھے آج جدا چاہتا ہے
میرے محبوب محبت میں سدا تیرے لئے
اچھا لگتا ہے مجھے دستِ دعا ہو جانا
تجھ سے اظہار محبت کا سلیقہ یہ ہے
ان کو ہر حال میں ہر غم کی دوا چاہتا ہے
شوخ نظروں سے وہ تکتا ہے بہاریں اپنی
پھر بھی وہ مری بادِ صبا چاہتا ہے
وہ جو اتراے کبھی دل میں ترے خوشبو بن کر
وشمہ اس باغِ بہاراں کی ہوا چاہتا ہے