تیری ایک ایک بات اب بھی یاد ہے مجھے آج تک
تیرے ہونٹوں سے نکلا ہر لفظ یاد ہے مجھے آج تک
تو نہ تھا تو تھے ہم بچپن کی ہر ایک خوشی میں
تیرے سنگ ملے جو غم ہر غم یاد ہے مجھے آج تک
تیرے ساتھ چلے تھے زندگی کے کچھ دن جب ہم
اور کیسے جدا ہوۓ راستے یاد ہے مجھے آج تک
تیرا وہ چلنا کبھی ہنس کے کبھی غُصے میں گزرنا
تیری وہ ایک ایک ادا اب بھی یاد ہے مجھے آج تک
کیا دن تھے تیری طرف دیکھتے پرواہ نہ تھی کسی کی
اور وہ بے پرواہی کا عالم اب بھی یاد ہے مجھے آج تک
تیری آمد کی خبر پر خوشی سے جھُومنا اور چلانا
وہ بے خودی کا عالم اب بھی یاد ہے مجھے آج تک
تیرے سامنے آتے ہی مجھے میں ہر بات بھول جاتا ہوں
بے خودی میں تجھے دیکھنے کا عالم یاد ہے مجھے آج تک
تیرے آنے کی دعائیں کرنے تجھے مانگنا ہے دعاوُں میں
اپنے ملن کیلۓ ہاتھوں کا اُٹھنا یاد ہے مجھے آج تک
جدائی تو لکھی تھی ہاتھوں کی لکیروں پر مسعود
آخری دن تیرا یوں دیکھنا اب بھی یاد ہے مجھے آج تک