میرے دل کو تیری یاد پھر سے آئی
میری بے رونق ذندگی میں بہار پھر سے آئی
کچھ گزرے لمحے، کحچھ بیتی باتیں
یادوں کی چلمن سے وہ ماضی کی رونقیں یاد آئیں
کھلے آسمان کے نیچے ساغر کا جھلک جانا
میرے جام میں ویسی لہر پھر سے آئی
گردش وجود میں اک تیری ہی ذات ہے
تیری ذات میرے گرد پھر گردش میں آئی