عشق پر ہجر کا کیسا ہے یہ چکر مجھکو
مر مٹے پر نہ ملی وصل کی چادر مجھکو
جب بھی خطرہ ہوا ہی پایا ہے مڑ کر مجھکو
باندھ کر سر پہ کفن وہ چلا گھر گھر مجھ کو
ساتھ مانگا ہے ترا اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا میری طلب گھر مجھکو
ختم ہونے کو نہیں آے ابھی میرے الم
چھیڑ بیٹھی ہوں مگر ساز یہ شب بھر مجھکو
روشنی دے نہ سکے چھینے غریبوں کے د ئے
بننا تھا نجم وطن ننگ ستمگر مجھ کو
بستیاں چھان لیں انسان نہ پائے ہم نے
لے کے آشا کی کرن دشت برابر مجھ کو
گزرے کوچے سے ترے آج جو انجانے میں
تیری نظروں میں فقط خار میسر مجھ کو
تاک میں دوست بھی ہیں اور عدوبھی وشمہ
اب ترے پیش نظر ہو کہ یہ تیور مجھکو