وحشتیں بڑھتی گئیں چاک گریبان ہپوا
تیری گلیوں میں یوں اک شخص پریشان ہوا
اس سے امید وفا سادہ دلی تھی میری
ایسی امید پہ میں کتنا پشیمان ہوا
چاند نکلے گا مگر اس کے ہی آنگن کے لیے
میرے گھر میں کبھی جگنو بھی نہ مہمان ہوا
میرے یاران چمن مجھ کو قفس میں نہ ملے
میرا ہر دوست برے وقت میں انجان ہوا
سارے ہی شہر میں شہرت بھی ہے رسوائی بھی
تیرا ہی نام مرے نام کی پہچان ہوا
جس کو اپنوں نے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا
زندگی میں اسے ہنسنا کبھی آسان ہوا ؟؟؟