تیری ہی خطا ہے اے غمگیں دل شکستہ
وہ تو آشنا نہیں تو کیوں گلہ کرے
سو رہا تھا تو حسیں خوابوں کی چاہ میں
تعبیر گر بھیانک ہے تو کیوں گلہ کرے
ان کی ندا کے سحر میں خود ہی کھو گیا تھا تو
اب لہجے کے پیچ و خم کا تو کیوں گلہ کرے
تجھ کو تو قربت محبوب کی طلب ہی تھی
پہلو میں جو رقیب رہے تو کیوں گلہ کرے
تجھ کو تو ان کی نظر کے طلسم نے تباہ کیا
چہرے پہ جو حجاب ہو تو کیوں گلہ کرے
وہ تو تیغ زن تھا ناوک سے نہ تھی فرصت
گر خوں ہو چکا ہے دل و جگر توکیوں گلہ کرے
لکیروں میں چھپی قسمت پہ تجھ کو ناز تھا
اب جو بچھڑ گیا ہےوہ تو کیوں گلہ کر ے