پاس میرے تیری یادوں کے سوا کچھ تو ہوتا
درد ہی سہی پر تیرا دیا کچھ تو ہوتا
ہم اسے منانے کے بہانے مل لیتے مگر
جو خوش نہیں ہم سے وہ خفا کچھ تو ہوتا
زندگی سے میرے جیسے مراسم نہ رہے
کہ جو غیر نہیں وہ اپنا کچھ تو ہوتا
کیسی تاریکی ہے کہ سایہ بھی نہیں ساتھ
کوئی فانوس کوئی دیا کچھ تو ہوتا
اور کیا ہے تیرا دھڑکنوں کے سوا جہاں میں
زمانے میں تیرا دل آشیفتہ نوا کچھ تو ہوتا