تیری یادیں تیرا چہرہ جونہی بنانے لگتی ہیں
آنکھیں پھر آنسووں سے اسے مٹانے لگتی ہیں
کچھ وقت جو کبھی مل ہی جائے تنہائی کا مجھے
میری سوچیں مجھے سولی پے چڑھانے لگتی ہیں
کبھی کیا تھا اقرار تو نے بھی پیار محبت کا
گزری یادیں مجھ پے پجلیاں گرانے لگتی ہیں
تو دوبارہ مجھے نا ملے گا کبھی گر سوچوں تو
ہوائیںشمع زندگی کی بجھانے لگتی ہیں
گلہ کیا کرنا کسی سے اپنی بربادی کا تنویر!
نا چاہوں پھر بھی یادیں تیری جی جلا نے لگتی ہیں