تیری یاد جو آ جائے پھر نیند نہیں آتی
کیسے بھیگتا ہیں تکیہ - بات کی سمجھ نہیں آتی
یہ دوریاں ، مجبوریاں فناء کب ہو گئ
فاصلوں کی لکیریں مجھے مٹانی نہیں آتی
شاید ! اپنی ہی خطاوں کے عذاب میں ہوں
مجھے اپنی بات کیسی پر ڈالنی نہیں آتی
یہ اس طرح سے تم بھی یاد کرتے ہو مجھے
پوچھتی ہوں دل سے - پر تیری آواز نہیں آتی
تم ساتھ ہو کر کتنے دور ہو مجھ سے
فاصلوں کو ناپوں - پر اتنی گنتی نہیں آتی
نومبر کی راتوں میں پھر تنہا جاگتی آنکھیں
تیری بات چھڑ جایئں تو پھر نیند نہیں آتی