پُھول روتے ہیں کہ آئی نہ صدا تیرے بعد
غرقۂ خوں ہے بہاروں کی رِدا تیرے بعد
آندھیاں خاک اُڑاتی ہیں سرِ صحنِ چمن
لالہ و گل ہُوئے شاخوں سے جُدا تیرے بعد
جاہ و منصب کے طلبگاروں نے یوں ہاتھ بڑھائے
کوئی دامن بھی سلامت نہ رہا تیرے بعد
جن کو اندازِ جنُوں تُو نے سکھائے تھے کبھی
وہی دیوانے ہیں زنجیر بپا تیرے بعد
کس سے آلامِ زمانہ کی شکایت کرتے
واقفِ حال کوئی بھی تو نہ تھا تیرے بعد
اب پکاریں تو کسے زخم دکھائیں تو کسے
ہم سے آشفتہ سر و شعلہ نوا تیرے بعد
پھر بھی مایوس نہیں آج تیرے دیوانے
گو ہر اک آنکھ ہے محرومِ ضیا تیرے بعد
راستے سخت کٹھن منزلیں دشوار سہی
گامزن پھر بھی رہے آبلہ پا تیرے بعد
جب کبھی طُلمتِ حالات فضا پر برسی
مشعلِ راہ بنی تیری صدا تیرے بعد
آج پھر اہلِ وطن انجم و خورشید بکف
ہیں رواں تیری دکھائی ہوئی منزل کی طرف