اب تجھے سوچنے کے سوا کوئی اور کام کیا بھی نہیں جاتا
ساتھ دینا بھی مشکل ہے تیرے بغیر جیا بھی نہیں جاتا
پھٹ گیا جو صفحہ زیست زندگی کی کتاب سے
ان شکستہ ہاتھوں سے وہ دوبارہ سیا بھی نہیں جاتا
مرنے کی خواہش نہ زندگی سے پیار ہے ہمیں
اور جو زہر تم نے دیا ہے وہ ہم سے پیا بھی نہیں جاتا
تم جو چاہو تو ہجر کی ہر شب ہمارے نام لکھ دو
اور ہم کو یہ حق کسی بھی جگہ دیا نہیں جاتا
تم جان بھی مانگتے تو ہتھیلی پہ رکھ کے دے دیتے
مگر جو کام تم نے کہا ہے وہ ہم سے کیا بھی نہیں جاتا