تیرے جانے کے بعد نہ گھر سجا سکے ہم
داغِ ہجر ہیں اب تک نہ مٹا سکے ہم
خطا تیری ہی نہیں میرا نصیب ہے یہ
شب تنہائی میں شمع نہ جلا سکے ہم
رہبرِ الفت نہ رہا میرے دیار میں
سخنِ غم کسی کو نہ سنا سکے ہم
گوہ میرے لبوں پہ ہیں مسکان کے رنگ
اشک دل کسی کو نہ دکھا سکے ہم
آج بھی حیران ہیں گلوں کی شوخیاں
آرزوئے بہار تھی کہ نہ پا سکے ہم
جب سے بھلا دیا ہے تم نے عہد وفا خالد
کہہ دو قاصد درِ الفت نہ جا سکے ہم